جنگی صورتحال اور شہری دفاع: ایک نظرانداز شدہ محاذ

Spread the love

تحریر: نسیم اختر شیخ

خطے میں جاری پاک-بھارت کشیدگی کے تناظر میں یہ سوال ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے کہ اگر خدانخواستہ صورتحال کسی جنگی محاذ میں ڈھلتی ہے تو ہمارے عام شہری کس حد تک تیار ہیں؟ اور ریاست نے شہریوں کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے کیا تربیت فراہم کی ہے؟ ماضی میں شہری دفاع (سول ڈیفینس) ایک فعال ادارہ تھا، جو نہ صرف دفاعی مشقیں کرواتا تھا بلکہ عام افراد، خصوصاً نوجوانوں کو ابتدائی طبی امداد، نظم و ضبط، اور ایمرجنسی ردعمل کی باقاعدہ تربیت دیتا تھا۔ اسکولوں اور کالجوں میں گرلز گائیڈ ، اسکاوٹس اور نیشنل کیڈٹ کور (NCC) جیسی سرگرمیاں طلبہ کے کردار سازی کا حصہ ہوتی تھیں۔ اس نظام سے نہ صرف حب الوطنی فروغ پاتی تھی بلکہ انسانی جان کی قدر، صبر، تحمل اور اجتماعی نظم کی تربیت بھی حاصل ہوتی تھی۔

بدقسمتی سے وقت کے ساتھ یہ نظام زوال پذیر ہوا، اور شہری دفاع کا ادارہ محض رسمی کارروائیوں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ آج جب سرحدوں پر گولہ بارود کی گھن گرج سنائی دے رہی ہے، ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ اگر کوئی سانحہ پیش آ جائے، کوئی بلاسٹ ہو، یا ہوائی حملہ ہو، تو ہمارے شہری کیا جانتے ہیں؟ جائے حادثہ کو محفوظ رکھنا، زخمیوں کو کیسے منتقل کرنا ہے، ابتدائی طبی امداد کس طرح دینی ہے، یا ثبوت کیسے محفوظ رکھنے ہیں—یہ سب وہ بنیادی نکات ہیں جن پر تربیت کا شدید فقدان ہے۔

اس صورتحال میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر شہری دفاع کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے تناظر میں مختلف محکموں کی ذمہ داریاں بھی واضح ہونی چاہئیں۔ محکمہ شہری دفاع (Civil Defence Sindh) کو چاہیئے کہ وہ تربیتی پروگرامز اور رضاکارانہ رجسٹریشن مہمات کا آغاز کرے۔ محکمہ داخلہ سندھ کو امن و امان کے قیام کے ساتھ ساتھ سول ڈیفینس اداروں سے مربوط حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ محکمہ صحت سندھ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایمرجنسی وارڈز کو فعال رکھے، طبی عملے کو تیار کرے اور ایمبولینس نظام کو بہتر بنائے۔ PDMA سندھ (صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کو ایمرجنسی پلان، ریسکیو مشقوں اور وسائل کی دستیابی پر توجہ دینی چاہیے۔ محکمہ تعلیم کو اسکول، کالج اور یونیورسٹی سطح پر سول ڈیفینس، NCC اور ابتدائی طبی امداد کی تربیت دوبارہ متعارف کرانی چاہیے، تاکہ ہماری نئی نسل صرف نصابی علم تک محدود نہ رہے بلکہ عملی زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھے۔ میڈیا، خاص طور پر ریڈیو پاکستان، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو چاہیئے کہ وہ ہنگامی رہنمائی اور حفاظتی تدابیر سے متعلق مسلسل آگاہی فراہم کریں۔

یہ وقت غفلت کا نہیں، تیاری کا ہے۔ شہری دفاع صرف جنگی حالات کے لیے نہیں، بلکہ زلزلہ، آگ، سیلاب یا کسی بھی ایمرجنسی میں زندگی بچانے کا وہ پہلا اور بنیادی نظام ہے، جسے دوبارہ زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ریاست نے اپنی ذمہ داری ادا نہ کی، تو ممکنہ بحران میں سب سے زیادہ نقصان ان ہی شہریوں کا ہوگا جنہیں کبھی تربیت نہیں دی گئی۔

مَي 10, 2025

اي پيپر

اسان جو فيس بوڪ صفحو